Faraz Faizi

Add To collaction

28-Jun-2022-تحریری مقابلہ(مایوسی) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو


انسان کی زندگی میں ہر قسم کا وقت اور طرح طرح کے موڑ آتے ہیں، جب کبھی خوشیاں اور آسائشیں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غافل کرتی ہیں، تو ہم راستہ بھٹک کر مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ امتحانات اور آزمائشیں دنیا میں نظام الٰہی کا حصہ ہیں۔

امتحانات اور مشکلات کے بھنور میں بسا اوقات حالات انتہا درجے تک بگڑ بھی جاتے ہیں، مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں، ظلم کے بادل چھٹنے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ بدگمانیاں، مایوسی اور ناامیدی دل میں گھر کر جاتی ہے۔

شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ مایوسی ایسی دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔

خالقِ کائنات نے دنیا کو اس اصول پر تخلیق فرمایا ہے کہ یہاں انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے مابین کشمکش کا شکار ہے، کامیابی پر خوشی کا اظہار تو ہر شخص کر لیتا ہے لیکن تاریخ میں ایسے افراد کم ہی نظر آتے ہیں جو ناکامی کی صورت میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے ایک نئے جذبہ کے ساتھ دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوں ۔
مشہور ماہر نفسیات ڈینل کارنیگی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ’’جب انسان ناکامیوں اور مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے تو اس کے لیے دو راستے ہوتے ہیں، مثبت راستہ اور منفی راستہ ۔ اگر انسان ایسے میں مثبت راستہ اختیار کرتا ہے تو یہی ناکامیاں اور محرومیاں اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگا کر مہمیز کر دیتی ہیں، اور اگر ایسے میں منفی راستہ اختیار کیا جائے تو مایوسی اس کا مقدر بن کر تساہل، احساسِ کمتری، خوف، جرم یہاں تک کہ خودکشی جیسے انتہائی اقدام تک لے جاتی ہے۔

انسان کی مسلسل ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک ناکامی کے بعد اس کا ازالہ کرنے کی بجائے حزن و ملال میں وقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ پریشانی سے نکلنے کے امکانات تلاش کرنے کی بجائے وہ چیخ و پکار کر کے اپنی پریشانی کو مزید بڑھا لیتا ہے ۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ولیم آرچی کے مطابق: ’’ آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں اپنا وقت برباد کرتا ہے، وہ افسوس اور مایوسی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کی تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں، وہ یہ سوچ کر کُڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا کام جو بگڑ گیا، وہ نہ بگڑتا…… اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا ۔‘‘

کسی شاعر نے خوب کہا:
ناکامِ تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے 
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بندہ ایسی حالت میں بھی جب کہ وہ مصیبتوں اور آزمائشوں میں گھرا ہوتا ہے نا شکری کے الفاظ ادا کرتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے وقت میں اپنے مالک کو یاد کرتا، اور اس کی رحمت سے نا امید نہ ہو کر، صبر کا دامن تھامے ہوئے اسی کی رضا پر راضی رہتا اور اس کی بے پایاں رحمتوں کا مستحق بن جاتا! کیونکہ وہ خود فرما رہا ہے لاَ تَیْأَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۔‘‘ (یوسف:۸۷)
’’تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔‘‘
لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا :۔۔

اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بندے سے اگرچہ بڑے بڑے اور بے شمار گناہ صادر ہوئے ہوں  لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں  ہونا چاہئے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہا وسیع ہے اور ا س کی بارگاہ میں  توبہ کی قبولیت کا دروازہ تب تک کھلا ہے جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں  پہنچ جاتا ،اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اپنے گناہوں  سے سچی توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔

مایوسیوں کے شکار ہونے والے کو چاہئے کہ وہ فارسی کا یہ مقولہ یاد رکھیں " رحمت خدا بہانہ میجوید" اللہ کی رحمت تو بہانہ تلاش کرتی ہے کہ بندہ کسی طرح بخشا جائے۔
روایات میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت دو بندوں کو بلائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ تم نے دنیا میں بے شمار گناہ کیے ہیں، اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے، جاؤ! جہنم میں جاؤ، اس حکم کو سن کر ان میں سے ایک بہت تیزی سے جہنم کی طرف چل پڑے گا، دوسرا دھیرے دھیرے چلے گا اور بار بار مڑ کر اللہ کو دیکھے گا، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو واپس بلائے گا اور پہلے شخص سے سوال کریں گے کہ میں نے تم کو جہنم میں جانے کے لیے کہا، تم تیزی سے چل پڑے، اس کی کیا وجہ تھی؟ وہ بولے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں تیرا ہر حکم توڑا، اب تونے یہ آخری حکم دیا تو میں نے سوچا کہ اب یہ حکم نہیں توڑوں گا، اس لیے میں تیزی سے چل پڑا، اللہ دوسرے سے فرمائے گا: تم بار بار پیچھے مڑ کر کیوںدیکھ رہے تھے؟ وہ عرض کرے گا: تیری رحمت کی اُمید میں، بس یہ سن کر اللہ تعالیٰ دونوں سے راضی ہوجائے گا اور جنت کا فیصلہ فرمادیگا۔ (التذکرہ، قرطبی، ج: ۱، ص:۴۱۲)

واقعات و روایات تو کثرت سے موجود ہیں البتہ آخر میں حضرت علی کا یہ فرمان پڑھئے اور عبرت حاصل کیجئے:
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہوں  میں  سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیرسے بے خوف اوراُس کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہونا۔(کنزالعمّال، کتاب الاذکار، قسم الافعال، فصل فی التفسیر، سورۃ النّساء، ۱ / ۱۶۷، الجزء الثانی، الحدیث: ۴۳۲۲)

دعاوں کا طالب: فرازفیضی

   17
18 Comments

Aniya Rahman

01-Jul-2022 05:57 PM

Nice

Reply

Amir

30-Jun-2022 04:27 PM

bahut khub

Reply

Reyaan

29-Jun-2022 07:42 PM

👏👌

Reply